do_action( 'acm_tag', '728x90_leaderboard' );

Wednesday, July 26, 2017

بھید بھاؤ

الحمدلله ہم مسلمان ہیں،  اسلام نے ہمیں بہترین نظامِ حیات دیا،  ایک ایسا نظام جس میں امیر ہو یا غریب،  شاہ ہو یا فقیر،  عربی ہو یا عجمی،  سیاہ ہو یا سفید،  سب ایک ہے صرف کلمہ کی بنیاد پر،  قرآنی احکامات کی بنیاد پر،  حضور رسالت مآب صلی الله عليه وسلم کی تعظیم وتکریم اور ان سے عشق کی بنیاد پر،  مسلمانوں میں جو بھید بھاؤ کرتا ہے وہ زمانے بھر میں ذلیل و خوار ہوتا ہے جسکی ایک مثال۔۔۔۔۔
جبلہ بن الایہم الغسانی (قبیلہ بنو غسان کا سردار) جب مسلمان ہوا ایک دن کعبہ کے طواف کے دوران ایک مسلمان دیہاتی کا پیر اس کی چادر پر آگیا، اس نے اس مسلمان دیہاتی کو تھپڑ مار دیا، تھپڑ کی وجہ سے ان کے دو دانت ٹوٹ گئے اور ناک بھی زخمی ہو گئی۔ یہ دیہاتی مسلمان حضرت عمر فاروق رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور جبلہ بن ایہم کے سلوک کی شکایت کی۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جبلہ بن ایہم کو طلب فرمایا اور پوچھا :کیا تو نے اس دیہاتی کو تھپڑ مارا ہے؟ جبلہ نے کہا: ہاں میں نے تھپڑ مارا ہے، اگر اس حرم کے تقدس کا خیال نہ ہوتا تو میں اسے قتل کر دیتا۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: اے جبلہ ! تو نے اپنے جرم کا اقرار کر لیا ہے، اب یا تو اس دیہاتی سے معافی مانگ یا میں تم سے اس کا قصاص لوں گا۔ جبلہ نے حیران ہو کر کہا: کیا آپ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس غریب دیہاتی کی وجہ سے مجھ سے قصاص لیں گے حالانکہ میں تو بادشاہ ہوں ؟ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: اسلام قبول کرنے کے بعد حقوق میں تم دونوں برابر ہو۔ جبلہ نے عرض کی : مجھے ایک دن کی مہلت دیجئے پھر مجھ سے قصاص لے لیجئے گا۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس دیہاتی سے دریافت فرمایا :کیا تم اسے مہلت دیتے ہو؟ دیہاتی نے عرض کی: جی ہاں۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اسے مہلت دے دی، مہلت ملنے کے بعد راتوں رات جبلہ بن ایہم غسانی ملک شام کی طرف بھاگ گیا اور اس نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا۔ اور ملک شام کی کسی جنگی مہم میں وہ مسلمانوں کے مقابل ہوا اور واصلِ جہنم ہوا۔
اگر وہ بھید بھاؤ کی وجہ سے مرتد نہ ہوا ہوتا تو آج تاریخ اسلام میں اس کا نام سنہرے حروف میں لکھا ہوتا لیکن وہ مرتد ہو کر ذلیل وخوار ہوا۔
غیر اقوام کا مسلمانوں کے ساتھ بھید بھاؤ، چونکہ ہم ہندوستانی ہیں یہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ رہتے ہیں۔ ہم بحیثیتِ مسلمان ہندوستان کی سب سے بڑے اقلیتی طبقے کی حیثیت رکھتے ہیں جسکی وجہ سے ہم روز بروز اکثریتی طبقے کے بھیدبھاؤ کا نشانہ بنتے رہتے ہیں، لیکن اس امرِ حقیقی سے کوئی انکار نہیں کر سکتا(اکثریتی طبقہ بھی) کہ اس ملک میں حکومت کرنے سے لیکر ہندوستان کو انگریزوں سے آزاد کروانے تک اور آزادی کے بعد سے اب تک اس ملک کی تعمیر و ترقی میں ایک اہم کردار ہم مسلمانوں کا ہے۔ یہ تمام عالم پر عیاں ہے اس کے باوجود اس ملک میں ہمارے ساتھ بھیدبھاؤ کیا جاتا ہے،  ہماری مذہبی آزادی پر پہرے لگانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ بھارت ماتا کی جئے کہنے کا معاملہ ہو،  گائے کی نسل کے مذبحہ کا معاملہ ہو یا اذان کے لاؤڈ اسپیکر کا معاملہ ہو۔ کیا اس ملک کے منادر پر ان فرقہ پرستوں کی نظر نہیں جاتی جہاں کسی قسم کے قانون کا اطلاق نہیں ہوتا،  جیسے کہ غیر قانونی جگہوں پر منادر تعمیر کرنا،  مذہبی تہواروں پر غیر قانونی طریقے سے دن ہو یا رات تیز آواز میں لاؤڈ اسپیکر بجانا، مذہبی تہواروں پر عوام سے(بغیر تفریقِ مذہب و ملت) جبراً چندہ وصول کرنا وغیرہ ان جیسے کئی اور امور ہیں جس پر حکومت اور حکومت کے زرخرید میڈیا چشم پوشی کئے ہوئے ہیں۔ میرا سوال ہے حکومت سے اور اس کے زرخرید میڈیا سے کہ ہمارے ملک میں ہم ہی سے یہ بھید بھاؤ کیوں؟؟؟؟؟

🖋محسن یاسین 🖋
Contact: +919822269031


Wednesday, July 5, 2017

نظم

ہے ہندوستاں میرے ابَّا کا گھر
قدم حضرت آدم نے رکھّا یہیں پر

یہاں حکمراں ہو کے گزرا ہے اکبر
یہیں پر ہے مدفون صوفی، قلندر

یہاں میر، غالب،  و اقبال گزرے
یہیں ادباء، شعراء، و دانشور گزرے

یہ علماء و حفّاظ کی سرزمیں ہے
یہ چشتی، قطب و رضا کی زمیں ہے

یہیں پر ہے انمول مرمر کا تاج
نشانِ محبت کا ہر دل پے راج

یہیں سے اک چھوٹا سا اردو کا پودہ
تناور درخت بن کے دنیا میں ابھرا

یہاں خان اشفاق و ٹیپو کا خوں ہے
وطن سے محبت کا اعلیٰ جنوں ہے

مگر شر پسند ہم سے ہر دم یہ کہتے
کہیں اور جاؤ یہاں تم کیوں رہتے

سنو اے شریروں!  میں کہتا ہوں اکثر
ہے ہندوستاں میرے ابَّا کا گھر

محسن یاسین
Contact: +919822269031