do_action( 'acm_tag', '728x90_leaderboard' );

Tuesday, October 17, 2017

حمد باری تعالیٰ


یارب،  خدائے بحر و بر، کیسے کروں تیری ثناء
تو مالکِ لوح و قلم میں ناتواں بندہ ترا


یہ ماہ و انجم یہ زمیں،  یہ کہکشاں، تحت الثریٰ
سب پر ہے تو ہی حکمراں، سب تیرے ہی تابع خدا


آشفتگیِ زندگی، کا ہے مداوا تیری ذات
دنیا کے غم کچھ بھی نہیں گر تیری ہو یارب عطا


رحماں ہے تیری ذاتِ پاک،  تجھ سے ہی ہے بندے کی آس
تو منبعِ رحم و کرم،  تو مصدرِ جود و سخا


دریائے رحمت کے ترے،  مجھ پر بھی کچھ چھینٹے پڑیں
جھلسا وجودِ پُر خطا لے کر ترا سائل بنا


محسنِ خستہ نے لکھا،  تیری ثناء اے بادشاہ
روشن رہے جو دائما،  دے دے قلم میں وہ ضیا


محسن یاسین
مالیگاؤں، مہاراشٹر، ہند
9822269031

Monday, September 11, 2017

ग़ज़ल غزل


شدّتِ غم کے ان مراحل میں
ہجر کے یاس کے سلاسل میں

شہرِ جاناں میں قتل ہونے کو
سَرنگوں پیش کوئے قاتل میں

بے رخی کے ان تیز حملوں کی 
جراءتِ تاب نہیں کاہل میں

ہر گھڑی محوِ فکرِ جاناں ہوں
حِس نہیں اسکی یارِ غافل میں

دردِ فرقت کا مداوا ہے قمر
عکسِ جاناں ہے ماہِ کامل میں

یارِ محسن کا ہے احساں دل پر
عشق لکھّا ہے قلبِ جاہل میں

محسن یاسین
مالیگاؤں، مہاراشٹرا، ہند
9822269031


शिद्दत ए ग़म के इन मराहिल में
हिज्र के यास के सलासिल में

शहर ए जानाँ में क़त्ल होने को
सरनिगूँ पेश कूए क़ातिल में

बेरुख़ी के इन तेज़ हमलों की
जुरअत ए ताब नहीं काहिल में

हर घड़ी महव ए फ़िक्र ए जानाँ हूँ
हिस नहीं इसकी यार ए ग़ाफ़िल में

दर्द ए फ़ुरक़त का मदावा है क़मर
अक्स ए जानाँ है माहे कामिल में

यार ए मोहसिन का है एहसाँ दिल पर
इश्क़ लिख्खा है क़ल्ब ए जाहिल में


मोहसिन यासीन
मालेगांव, महाराष्ट्र, भारत
+919822269031


Tuesday, September 5, 2017

कविता

आज आया हूँ लौट कर फिर से,
कुछ घड़ी दूर होगया था मैं।

दूरियाँ थी मगर फिर उनके लिये,
एक एहसास बन गया था मैं।

कुछ थी मजबूरियाँ के मिल न सका,
वह समझते थे खो गया था मैं।

उन से रूठा नहीं था एक पल भी,
वह यह समझे ख़फ़ा ख़फ़ा था मैं।

अपनी रुसवाईयों के डर से ही,
इश्क़ से दूर हो गया था मैं।

किस ने आवाज़ दी मुझे फ़िर से,
फ़िर से उस जानिब बढ़ रहा था मैं।

रोक क़दमों को अब ठहर *मोहसिन*
ख़ुद को ही दिल में कह रहा था मैं।

✍🏻मोहसिन यासीन✍🏻

Wednesday, August 30, 2017

عشق کا قوس وقزع (इश्क़ का इंद्रधनुष )

جس طرح قوس وقزع کے سات رنگ ہوتے ہیں،  اسی طرح عشق کے سات رنگ کچھ اس طرح ہیں۔۔۔
"وفا، حیا، احساس، فکر، چاہت، تڑپ، قربانی"
ان سات رنگوں کو ملاکر عشق کا قوس وقزع بنانے کی کوشش کی ہے...
ایک احساس ہے یہ پاکیزہ
پاک ہے روح، جسم پاکیزہ

سات رنگوں کو جب ملائیں تو
اک دھنک رنگ عشق پاکیزہ

پہلا ہے رنگِ وفا عشق کی شرط
کر وفا کردے عشق پاکیزہ

دوسرا رنگ حیا کا اس میں
اس کے ہونے سے روح پاکیزہ

رنگ احساس کا بھی اس میں ہے
کر لے محسوس پیار پاکیزہ

خود کو بھولا ہوں فکرِ یار میں مَیں
ہر گھڑی اس کی فکر پاکیزہ

رنگ لے چاہت کے رنگ میں خود کو
چاہتوں کا یہ بھرم پاکیزہ

ہم تڑپتے ہیں عشق کی خاطر
عشق کا رنگِ تڑپ پاکیزہ

کر لے قربان خود کو اے محسن
یہ شہادت ہے یار پاکیزہ

محسن یاسین
مالیگاؤں، مہاراشٹر، ہند
9822269031


जिस तरह धनक (इंद्रधनुष) के सात रंग होते हैं,  उसी तरह इश्क़ के सात रंग कुछ इस तरह होते हैं....
"वफ़ा,  हया (Modesty), फ़िक्र,  एहसास, चाहत, तड़प, क़ुर्बानी"
इन सात रंगों को मिला कर मैं ने इश्क़ का इंद्रधनुष बनाने की कोशिश की है। .....

एक एहसास है यह पाकीज़ा
पाक है रूह, जिस्म पाकीज़ा

सात रंगों को जब मिलाएँ तो
एक धनक रंग इश्क़ पाकीज़ा

पहला है रंग ए वफ़ा इश्क़ की शर्त
कर वफ़ा कर दे इश्क़ पाकीज़ा

दूसरा रंग हया का इस में
इस के होने से रूह पाकीज़ा

रंग एहसास का भी इस में है
कर ले महसूस प्यार पाकीज़ा

ख़ुद को भूला हूं फ़क्र ए यार में मैं
हर घड़ी उस की फ़िक्र पाकीज़ा

रंग ले चाहत के रंग में ख़ुद को
चाहतों का यह भरम पाकीज़ा

हम तड़पते हैं इश्क़ की ख़ातिर
इश्क़ का रंग ए तड़प पाकीज़ा

कर ले क़ुर्बान ख़ुद को ऐ मोहसिन
यह शहादत है यार पाकीज़ा

मोहसिन यासीन
मालेगांव, महाराष्ट्र, भारत 
9822269031


Tuesday, August 29, 2017

غزل (ग़ज़ल)

الفت سے تیری پوچھا جب تنہائی کا سبب،
کہنے لگی کہ یاد بھی کرتے نہیں ہیں اب۔
ہمدم پر درد دینے کا الزام لگایا،
خود ٹوٹ کر بِکھرتی ہے تنہائیوں سے اب۔
وعدہ تھا یہ کہ ساتھ نہ چھوٹے گا اب کبھی،
وعدے پہ میرے خود کو سمیٹے ہوئے ہیں اب۔
وعدے پہ تو مِٹے یہ گوارا نہیں مجھے،
وعدہ تھا ساتھ جینے کا مرنا ہے ساتھ اب۔
محسن! وہ انتظار کی گھڑیاں ہیں گِن رہی،
تجھ کو وفا کا واسطہ، دوری مِٹا دے اب۔

محسن یاسین
مالیگاؤں،  مہاراشٹرا، ہند
9822269031


उल्फ़त से तेरी पूछा जब तन्हाई का सबब,
कहने लगी के याद भी करते नहीं है अब...
हमदम पर दर्द देने का इल्ज़ाम लगाया,
ख़ुद टूट कर बिखरती है तन्हाईयों से अब...
वादा था यह के साथ ना छूटे गा अब कभी,
वादे पे मेरे ख़ुद को समेटे हुए है अब...
वादे पे तू मिटे यह गवारा नहीं मुझे,
वादा था साथ जीने का मरना है साथ अब...
मोहसिन!  वह इन्तज़ार की घड़ियां है गिन रही,
तुझ को क़सम वफ़ा की, तू दूरी मिटा दे अब...

मोहसिन यासीन
मालेगांव, महाराष्ट्र, भारत
9822269031


Wednesday, August 2, 2017

زندگی میں لوگوں کی اہمیت

اگر یہ تصوّر کیا جائے کہ ہم اپنے آپ میں جی رہے ہیں،  انسانی سماج کا حصہ ہوتے ہوئے بھی دوسرے لوگوں سے بے تعلقی، تنہائی پسندی، دنیاوی امور اور سماجی روابط سے کنارہ کشی،  رشتوں کی ناقدری میں جی رہے ہیں تو یہ تصوّر کتنا عجیب لگتا ہے کہ ہماری زندگی کتنی بے رنگ و بے نور ہے۔
آغوشِ مادر سے لے کر آغوشِ قبر تک انسان دوسرے لوگوں پر منحصر رہتا ہے اور اپنے اطراف کے لوگوں میں اپنے لئے خوشی ڈھونڈتا ہے۔ بچہ والدین کے آغوش میں سکون پاتا ہے۔ اور وہی بچہ ماں باپ کیلئے آنکھوں کا نور اور دل کا سکون ہوتا ہے۔ بہن بھائی کا معصوم سا رشتہ،  ایک پَل کیلئے لڑنا اور اگلے ہی پَل ایکدوسرے کیلئے تڑپنا۔ بیوی اور شوہر کا پاکیزہ رشتہ ایکدوسرے کیلئے تسکینِ روح و تسکینِ قلب کا ذریعہ ہے،  ایک حسین رشتہ جو پیار، محبت،  اعتماد، وفا، ایثار، قربانی، درگذر، معافی جیسے بے شمار عناصر کا مرکب ہے۔اسی طرح ایک اور نا قابلِ فراموش رشتہ دوستی کا بھی ہے۔ اس عیاں سچّائی سے کوئی چشم پوشی نہیں کر سکتا کہ وہ انسان کبھی دکھی و پریشان نہیں ہو سکتا جس کے پاس اچھے اور مخلص دوستوں جیسا سرمایہ ہو۔ دوست وہ ہوتے ہیں جو خوشیوں میں ہمارے ساتھ شریک ہوتے ہیں اور مشکل وقت میں ہمیں ہمّت و حوصلہ دیتے ہیں اور ہمارے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوتے ہیں۔
زندگی کے ہر موڑ پر انسان کا نئے نئے لوگوں سے سامنا ہوتا ہے، روابط بڑھتے ہیں، کوئی خوشی کا ذریعہ بنتا ہے تو کوئی دل دُکھانے کا سبب۔ یعنی زندگی کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ ساتھ اور وقت کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ انسان اچھے اور بُرے لوگوں کے روبرو ہوتا رہتا ہے۔ کچھ لوگ ہمارے دل و دماغ،  ہماری پسند نا پسند، ہماری خوشی و ناراضگی اور ہمارے دل کی کیفیات سے واقف ہوتے ہیں تو کوئی ناآشنا۔ اس موقع پر انور شعور کا ایک شعر یاد آتا ہے۔۔۔۔۔
زندگی میں ہر طرح کے لوگ ملتے ہیں 'شعور'
آشنائے درد و دل،  ناآشنائے درد و دل
محسن یاسین
مالیگاؤں، مہاراشٹر
Contact: +91-9822269031


Wednesday, July 26, 2017

بھید بھاؤ

الحمدلله ہم مسلمان ہیں،  اسلام نے ہمیں بہترین نظامِ حیات دیا،  ایک ایسا نظام جس میں امیر ہو یا غریب،  شاہ ہو یا فقیر،  عربی ہو یا عجمی،  سیاہ ہو یا سفید،  سب ایک ہے صرف کلمہ کی بنیاد پر،  قرآنی احکامات کی بنیاد پر،  حضور رسالت مآب صلی الله عليه وسلم کی تعظیم وتکریم اور ان سے عشق کی بنیاد پر،  مسلمانوں میں جو بھید بھاؤ کرتا ہے وہ زمانے بھر میں ذلیل و خوار ہوتا ہے جسکی ایک مثال۔۔۔۔۔
جبلہ بن الایہم الغسانی (قبیلہ بنو غسان کا سردار) جب مسلمان ہوا ایک دن کعبہ کے طواف کے دوران ایک مسلمان دیہاتی کا پیر اس کی چادر پر آگیا، اس نے اس مسلمان دیہاتی کو تھپڑ مار دیا، تھپڑ کی وجہ سے ان کے دو دانت ٹوٹ گئے اور ناک بھی زخمی ہو گئی۔ یہ دیہاتی مسلمان حضرت عمر فاروق رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور جبلہ بن ایہم کے سلوک کی شکایت کی۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جبلہ بن ایہم کو طلب فرمایا اور پوچھا :کیا تو نے اس دیہاتی کو تھپڑ مارا ہے؟ جبلہ نے کہا: ہاں میں نے تھپڑ مارا ہے، اگر اس حرم کے تقدس کا خیال نہ ہوتا تو میں اسے قتل کر دیتا۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: اے جبلہ ! تو نے اپنے جرم کا اقرار کر لیا ہے، اب یا تو اس دیہاتی سے معافی مانگ یا میں تم سے اس کا قصاص لوں گا۔ جبلہ نے حیران ہو کر کہا: کیا آپ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس غریب دیہاتی کی وجہ سے مجھ سے قصاص لیں گے حالانکہ میں تو بادشاہ ہوں ؟ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: اسلام قبول کرنے کے بعد حقوق میں تم دونوں برابر ہو۔ جبلہ نے عرض کی : مجھے ایک دن کی مہلت دیجئے پھر مجھ سے قصاص لے لیجئے گا۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس دیہاتی سے دریافت فرمایا :کیا تم اسے مہلت دیتے ہو؟ دیہاتی نے عرض کی: جی ہاں۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اسے مہلت دے دی، مہلت ملنے کے بعد راتوں رات جبلہ بن ایہم غسانی ملک شام کی طرف بھاگ گیا اور اس نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا۔ اور ملک شام کی کسی جنگی مہم میں وہ مسلمانوں کے مقابل ہوا اور واصلِ جہنم ہوا۔
اگر وہ بھید بھاؤ کی وجہ سے مرتد نہ ہوا ہوتا تو آج تاریخ اسلام میں اس کا نام سنہرے حروف میں لکھا ہوتا لیکن وہ مرتد ہو کر ذلیل وخوار ہوا۔
غیر اقوام کا مسلمانوں کے ساتھ بھید بھاؤ، چونکہ ہم ہندوستانی ہیں یہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ رہتے ہیں۔ ہم بحیثیتِ مسلمان ہندوستان کی سب سے بڑے اقلیتی طبقے کی حیثیت رکھتے ہیں جسکی وجہ سے ہم روز بروز اکثریتی طبقے کے بھیدبھاؤ کا نشانہ بنتے رہتے ہیں، لیکن اس امرِ حقیقی سے کوئی انکار نہیں کر سکتا(اکثریتی طبقہ بھی) کہ اس ملک میں حکومت کرنے سے لیکر ہندوستان کو انگریزوں سے آزاد کروانے تک اور آزادی کے بعد سے اب تک اس ملک کی تعمیر و ترقی میں ایک اہم کردار ہم مسلمانوں کا ہے۔ یہ تمام عالم پر عیاں ہے اس کے باوجود اس ملک میں ہمارے ساتھ بھیدبھاؤ کیا جاتا ہے،  ہماری مذہبی آزادی پر پہرے لگانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ بھارت ماتا کی جئے کہنے کا معاملہ ہو،  گائے کی نسل کے مذبحہ کا معاملہ ہو یا اذان کے لاؤڈ اسپیکر کا معاملہ ہو۔ کیا اس ملک کے منادر پر ان فرقہ پرستوں کی نظر نہیں جاتی جہاں کسی قسم کے قانون کا اطلاق نہیں ہوتا،  جیسے کہ غیر قانونی جگہوں پر منادر تعمیر کرنا،  مذہبی تہواروں پر غیر قانونی طریقے سے دن ہو یا رات تیز آواز میں لاؤڈ اسپیکر بجانا، مذہبی تہواروں پر عوام سے(بغیر تفریقِ مذہب و ملت) جبراً چندہ وصول کرنا وغیرہ ان جیسے کئی اور امور ہیں جس پر حکومت اور حکومت کے زرخرید میڈیا چشم پوشی کئے ہوئے ہیں۔ میرا سوال ہے حکومت سے اور اس کے زرخرید میڈیا سے کہ ہمارے ملک میں ہم ہی سے یہ بھید بھاؤ کیوں؟؟؟؟؟

🖋محسن یاسین 🖋
Contact: +919822269031


Wednesday, July 5, 2017

نظم

ہے ہندوستاں میرے ابَّا کا گھر
قدم حضرت آدم نے رکھّا یہیں پر

یہاں حکمراں ہو کے گزرا ہے اکبر
یہیں پر ہے مدفون صوفی، قلندر

یہاں میر، غالب،  و اقبال گزرے
یہیں ادباء، شعراء، و دانشور گزرے

یہ علماء و حفّاظ کی سرزمیں ہے
یہ چشتی، قطب و رضا کی زمیں ہے

یہیں پر ہے انمول مرمر کا تاج
نشانِ محبت کا ہر دل پے راج

یہیں سے اک چھوٹا سا اردو کا پودہ
تناور درخت بن کے دنیا میں ابھرا

یہاں خان اشفاق و ٹیپو کا خوں ہے
وطن سے محبت کا اعلیٰ جنوں ہے

مگر شر پسند ہم سے ہر دم یہ کہتے
کہیں اور جاؤ یہاں تم کیوں رہتے

سنو اے شریروں!  میں کہتا ہوں اکثر
ہے ہندوستاں میرے ابَّا کا گھر

محسن یاسین
Contact: +919822269031


Sunday, January 1, 2017

"صنم"


🌹🌷غزل🌷🌹

تم ہی حیات میری حاصلِ حیات صنم
جمال و حسن تیرا رشکِ کائنات صنم

اب صرف تم ہی خیال و تصوّرات میں ہو
تم ہی ہو جانِ خیال و تصوّرات صنم

تمہارے آنے سے گلشن مہکنے لگتا ہے
تمہارے بِن بہت سونے ہیں یہ باغات صنم

ہمارا دھیان و توجّہ ہماری رغبت تم
کرو ہماری طرف نظرِ اِلتفات صنم

جو تم مِلو تو خوشی تم نہ مِلو تو دُکھ ہو
یہ زندگی میں عجب ہیں تغیّرات صنم

کسی بھی محفل و مجلس میں دل نہیں لگتا 
تم آؤ جھوم اُٹھے بزم خیالات صنم

تمہارے ایک تبسُّم کے واسطے "محسن"
مِٹا بھی سکتا ہے سب اپنی خواہشات صنم

🖋محسن یاسین🖋